ایم ایم احمد ۔ شخصیت اور خدمات

فہرست مضامین

ڈاکٹر عبدالسلام کا ورثہ بیش قیمت ہے اور محفوظ کئے جانے کے لائق ہے

یہ میرے لئے نہایت ہی اعزاز و اکرام کی بات ہے کہ مجھے ڈاکٹر عبدالسلام کی تکریم اور یاد میں شائع ہونے والے ’’النحل‘‘ کے خصوصی نمبر کا پیش لفظ لکھنے کو کہا گیا ہے۔ یہ بات کہ وہ اپنے خصوصی میدان میں ایک عبقری تھے ہر شک و شبہ سے بالا ہے۔ نوبیل پرائز اور ان بیشمار اعزازات کے علاوہ جو انہیں دنیا کی شہرہ آفاق یونیورسٹیوں کی طرف سے دیئے گئے۔ جو چیز انہیں منفرد بناتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ دنیا کے پہلے (دین حق کے پیروکار) تھے جنہیں یہ بیش بہا امتیاز حاصل ہوا۔

افسوس کی بات ہے کہ ان کے اعزاز پر جہاں بے شمار لوگوں نے دل کھول کر داد دی وہاں پاکستان نے اسے بڑی تنگ دلی سے قبول کیا ان میں سے بعض نے یہاں تک جسارت کی کہ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی توانائی کے راز ’’نابلد‘‘ یہودیوں کو مہیا کئے جن کو ایٹمی توانائی کے متعلق گویا کچھ علم نہیں تھا!

یہ ظالمانہ الزام اس شخصیت پر دھرا گیا۔

  •  جس نے اس کوشس میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا کہ اس کا وطن سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدید دنیا میں قدم رکھنے لگے۔
  •  جس نے دوسرے ملکوں کی طرف سے وہاں کا دورہ کرنے کے دعوت ناموں کا جواب اس لئے مؤخر کر دیا کہ پہلے اس کو اپنے ملک کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہو جائے۔
  •  جس نے بہت سے ملکوں کی طرف سے شہریت کی پیشکش مسترد کر دی اس لئے کہ وہ شخص نہایت سختی سے اس بات پر مصر تھا کہ اس کا یہ اعزاز (نوبیل پرائز) اس کی پاکستان کے ساتھ وفاداری اور حب الوطنی کی ایک عاجزانہ علامت کے طور پر پاکستان کے لئے ہے اور پاکستان کے لئے رہے گا۔

مجھے اس بارہ میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ کا فیصلہ ان اصولوں کے حق میں بلند آہنگ اور ظاہر و باہر ہوگا جن کا ڈاکٹر سلام اپنی ایثار و وفا والی زندگی میں برابر پرچار کرتے رہے۔

ایک و اقعہ جو بہت کم لوگوں کو معلوم ہے ان کی اس سکیم سے متعلق ہے جو انہوں نے راجہ صاحب آف محمود آباد کے ساتھ مل کر بنائی تھی۔ یہ کہ سب مسلمان ممالک امیر و غریب مل کر اسلامک سائنس فاؤنڈیشن کو سپانسر کریں۔ یہ ممالک مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے ایک ٹرسٹ قائم کرنے کی غرض سے اپنے زرمبادلہ کی کم سے کم مقرر شدہ فی صد شرح کے حساب سے رقوم مہیا کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے مختلف مسلم ممالک کی یونیورسٹیوں میں مختلف مضامین کی بین الاقوامی معیار کی چیئرز (پروفیسرز کی آسامیاں ) قائم کی جائیں گی جن کے اخراجات مجوزہ ٹرسٹ برداشت کرے گا نیز یہ ٹرسٹ ہر مسلم ملک سے منتخب شدہ ذہین طلباء کو وظائف دے گا۔ سکیم یہ تھی کہ راجہ صاحب آف محمود آباد مڈل ایسٹ کے کچھ مسلم ممالک کا دورہ کرکے اس مہم کا آغاز کریں۔ بدقسمتی سے راجہ صاحب کی دل کے عارضہ کے باعث اچانک وفات اس سکیم کے بارآور ہونے میں روک بن گئی۔ عالمی بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت میں جبکہ پاکستان کے ساتھ ساتھ بہت سے مڈل ایسٹ کے ممالک کی نمائندگی بھی میرے سپرد تھی۔ بعض تیل سے مالا مال ممالک میں شوق اجاگر کرنے کی میری عاجزانہ کوشش کسی قسم کا مثبت جواب پیدا کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ اس سکیم کی خاطر ڈاکٹر سلام نے جو پمفلٹ تیار کیا تھا وہ ان کی اس شدید خواہش پر گواہ ہے کہ مسلم دنیا علم اور اعلیٰ ٹیکنالوجی حاصل کرکے اپنی پسماندگی سے نکل کر جدید ترقی یافتہ دنیا میں شامل ہو جائے اور خوب پھولے پھلے۔

ایک اور مثال جو بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں ہے قارئین کرام کی دلچسپی کا باعث ہوگی۔ وزیر اعظم برطانیہ نے (غالباً ان کے کیمبرج یونیورسٹی کے چانسلر ہونے کی حیثیت میں ) وزیر اعظم پاکستان کے نام ایک خط میں یہ درخواست کی کہ ڈاکٹر سلام کی خدمات برطانیہ کے سپرد کر دی جائیں۔ کیونکہ ان کے اندر موجود صلاحیتیں ایسی ریسرچ کی مناسب سہولیات کے بغیر پنپ نہیں سکتیں جو پاکستان میں دستیاب نہیں ہیں۔ اور جو انہیں یوکے میں مہیا ہونگی۔ وزیر اعظم برطانیہ نے مزید کہا کہ انہیں اس بارہ میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ایک وقت آئے گا کہ جب ساری دنیا سے لوگ پاکستان میں ڈاکٹر سلام کے پاس آئیں گے اور ان کے علم سے فیض حاصل کریں گے۔

و زیر اعظم پاکستان نے یہ خط پنجاب گورنمنٹ کو بھجوا دیا کیونکہ اس وقت ڈاکٹر سلام گورنمنٹ کالج لاہور میں بطور پروفیسر کے کام کر رہے تھے۔ ڈاکٹر سلام خوش تھے اور کیمبرج یونیورسٹی جانے پر رضا مند تھے۔ لیکن انہوں نے ایک درخواست کی کہ چونکہ وہ اپنے والدین کے کفیل ہیں اس لئے ان کا یہ مسئلہ اس طرح آسان ہو سکتا ہے کہ تھوڑے عرصہ کے لئے انہیں اپنے والدین کے اخراجات کے لئے ایک صد پچاس روپے ماہانہ الاؤنس دیا جائے۔ محکمہ تعلیم نے اس درخواست کی حمایت کی لیکن نوکر شاہی کے معمول کے طریق کار کے مطابق مالیات کے محکمہ نے اس بنیاد پر اس تجویز کی مخالفت کر دی کہ: – ’’یہ ایک بری مثال قائم ہو جائے گی‘‘ مجھے محکمہ مالیات کے انڈر سیکرٹری کی رائے کو نظر انداز کر دینے میں کوئی مشکل یا ہچکچاہٹ درپیش نہ تھی۔ میں نے اس پر یہ اضافہ کیا کہ پاکستان کے لئے ایسی بہت سی نئی مثالیں قائم کرنا خوشی اور خوش بختی کی بات ہوگی۔ لہٰذا اس درخواست کو اس قسم کی پرمسرت مثالوں کے خوف سے ہرگز ردنہ کرنا چاہئے۔

جب ڈاکٹر سلام کو نوبیل انعام کا اعزاز دیا گیا تو میں نے انہیں اس مضمون کا تار بھیجا کہ وہ حضرت مسیح موعودکی دعاؤں اور پیش خبری کے اولین اثمار میں سے ایک ہیں۔ خوشخبری یہ ہے

’’خداتعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت لوگوں کے دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔‘‘

یہ حقیقت کہ تقریباً ایک ارب (دین حق کے پیروکاروں ) میں سے وہ واحد شخص جو نوبیل پرائز کا مستحق قرار پایا ایک احمدی تھا۔ اپنے آپ کو خود آشکار کر رہی ہے۔ ان کا عالمی منظر پر ابھرنا ہمارے لئے کسی حیرانی کا باعث نہیں تھا۔

ڈاکٹر سلام کا ورثہ بیش قیمت اور محفوظ کئے جانے کے لائق ہے۔ جو شمع انہوں نے روشن کی اور پاکستان کے لئے بڑے فخر سے لے کر چلے وہ لازماً اس وقت جگمگائے گی جب ہم تعصبات کو جھٹک دیں گے (دین) کی علم اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں عظمت رفتہ کو واپس لے آئیں گے۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم جاہلوں کی بات سنیں گے جنہوں نے(خواہ آپ مانیں یا نہ مانیں ) یہ اعلان کیا تھا کہ چاند پر اترنے کا امریکی دعویٰ جھوٹا تھا۔ ’’کیونکہ ہلال اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ آدمی اس پر قدم نہیں رکھ سکتا!!!۔‘‘

ہمیں یہ انتخاب کرنا ہوگا کہ کیا ہم ایسے لوگوں کی اندھا دھند تقلید کریں گے یا تندہی سے علم حاصل کرنے میں لگ جائیں گے۔ اور سائنس اور ٹیکنالوجی کو پورے انہماک سے ترقی دیں گے جیسا کہ درحقیقت (دین حق) نے تلقین فرمائی ہے۔ ایسا کرنے سے ہمارا شمار دنیا کے ترقی یافتہ خوشحال ممالک میں ہونے لگے گا۔

(سہ ماہی النحل ڈاکٹر عبدالسلام نمبر صفحہ 8-9) (بحوالہ الفضل 29اپریل 98ء)